اسلام آباد: سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار نے کہا ہے کہ بڑے بڑے امتحان آئے پارٹی کو کبھی نہیں چھوڑا۔ نواز شریف اور ن لیگ کا سیاسی بوجھ اٹھایا ہے لیکن کسی کی جوتیاں اٹھانے والا نہیں۔
سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ کسی تحریک کا حصہ نہیں اور نہ ہی آرڈر لے کر آیا ہوں۔ میرے سیاسی کیریئر کو دیکھیں اور کسی کی باتوں میں نہ آئیں۔ سیاسی فیصلے اپنی مرضی سے کرتا ہوں۔ میں کچھ مخصوص باتیں کرنا چاہتا ہوں۔ فی الحال ایک صوبائی 2 قومی اسمبلی حلقوں سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ کسی سوال پر بات نہ کروں تو سمجھیں جواب نہیں دینا چاہتا، میں نے کسی عہدے کا تقاضہ نہیں کیا، پارٹی میں عہدہ نہیں لیا، آزاد میڈیا ہے جس کے جو جی میں آتا ہے چلا دیتا ہے۔ پی ایم ایل این کے قائم ہونے سے قبل میں 3 مرتبہ وزیر بن چکا تھا۔ پارٹی 93-1992میں قائم ہوئی، میں پارٹی کا فاؤنڈر ممبر ہوں۔ 34 سال سے میاں نواز شریف کے ساتھ ہو، میں نے کہا جے آئی ٹی نے میاں صاحب کے حق میں فیصلہ کیا تو اپوزیشن متنازع بنائے گی۔ نواز شریف سے کہا ایسے اقدامات کریں جس سے پارٹی کو سیفٹی ملے۔ نواز شریف سے کہا فوج اور عدلیہ سے متعلق موقف دھیما کریں، پاناما لیکس ہوا تو نواز شریف کو سپریم کورٹ نہ جانے کا مشورہ دیا۔ میرا کوئی کیس عدالت میں نہیں مجھے فوج سے تمغہ نہیں لینا۔ سیاست جنگ نہیں اصولوں پر سمجھوتا کیے بغیر راستہ نکالنا ہے۔ ہمیں کس نے کہا تھا سپریم کورٹ جائیں، ہم خود گئے ، ہمیں کس نے کہا تھا جے آئی ٹی میں جائیں ہم خود گئے، سپریم کورٹ کا فیصلہ خود عدالت ہی غیر موثر کرسکتی ہے۔ حدیبیہ کیس کا فیصلہ نواز شریف اور خاندان کے حق میں آیا تھا۔
سابق وزیر داخلہ نے کہا کہ 40 سے 45 کا گروپ تھا میرے پاس، میرے پاس بے شمار ارکان آتے ہیں لیکن میں انہیں کہتا ہوں پارٹی میں رہنا ہے۔ میں اگر ناراض ہوتا تو جب نااہلی ہوئی تو ناراض ایم این ایز کو لے کر الگ ہو جاتا۔ بعض ارکان کو جانے سے نہیں روک سکا۔ ہر قانون سازی میں پارٹی کو ووٹ دیا، اسمبلی میں کھڑے ہو کر نواز شریف کے حق میں ووٹ دیا۔ پارٹی قائد کیلئے نواز شریف کے حق میں ووٹ دیا۔ سینیٹ الیکشن میں پارٹی امیدواروں کو ووٹ دیا۔ 4 ایسے لوگ تھے جو مشرف کے ساتھ تھے انہیں آپ نے سینیٹ کا ووٹ دیا۔ جب بھی پارٹی کو ضرورت ہوئی کھڑا رہا، موقف کی وجہ سے وزارت داخلہ کا عہدہ چھوڑا۔
چوہدری نثار نے کہا ہے کہ میں نے 34 سال نواز شریف کے ساتھ وفاداری دکھائی ہے۔ جو ساری عمر آپکے ساتھ رہا اس وقت ناپسندیدہ اسلیے ہے کہ اختلاف رائے رکھتا ہے، میاں صاحب اور ان کی بیٹی طعنہ زنی میں مصروف رہے کبھی شعر کی شکل میں، پیغامات اور لیکس کے ذریعے کھسر پھسر کے ذریعے مجھ پر حملے کیے جا رہے ہیں۔ یہ حملے ہضم کرنا میرے لیے مشکل ہیں، جب جواب دیا تو خاموشی ہوگئی۔ پیپلز پارٹی میں رضا ربانی اور اعتزاز احسن کیلئے باتیں نہیں کی گئیں۔ اتنا دور جانا نہیں چاہیے کہ واپسی کا راستہ نہ رہے، میرے مشوروں کو بدنیتی قرار نہیں دیا جا سکتا۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان اور پی ٹی آئی کا شکریہ، بڑی بات ہے کہ ایک پارٹی کے لیڈران مجھے شمولیت کی دعوت دے رہے ہیں۔